کہا کیا جاتا ہے کہ پیر صاحب جلالی ہیں بدتمیز کا نام ہم نے جلالی رکھ دیا تو یہ عجیب کہانی ہے تصوف تو اخلاق عالیہ کا نام ہے اور یہ جو نظرانے کا تصور ہے ہمارے ہاں طریقت میں اس کا یہ قطعا مفہوم نہیں ہے جو اس وقت موجودہ ایران کہہ لیں یا کرائم کہہ لیں انہوں نے رکھا ہوا ہے تو بالکل یہ تصور نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت بڑی این جی اوز ہیں ہر مرید نے اپنا دکھڑا پیر کے سامنے رکھنا ہوتا ہے اپنا راز اس کے سامنے بتانا ہوتا ہے اور وہ ہر ایک کے حالت ہر ایک کی حالت کے حالات سے اگاہ ہوتا ہے تو نظرانے کا تصور یہ ہے کہ امیروں سے لے اور غریبوں کی مدد کرے غریبوں سے بھی نظرانہ لے لیے جاتے ہیں وہ پتہ نہیں کراچی میں کوے ہوتے ہیں کہ نہیں ہوتے ہمارے تو وہ کوے ہوتے ہیں تو وہ بچہ روٹی کھا رہا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ سے بھی چھین کے لے جاتا ہے تو موجودہ دور میں تو پیروں کا بھی یہ حال ہے غریبوں سے بھی نظرانے لے رہے ہوتے ہیں اور وہ بیچارے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ان کو پال رہے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی اسودہ ہے ان کا وہ نظرانہ جو ہے وہ ایسے ہی ضائع ہو جاتا ہے یہ نہیں ہے کہ ان کو بڑی ضرورت ہوتی ہے پیران وہ ایک بے عمل نعت خان پہ ایسے لٹ جاتا ہے ایک سوٹ میں پھینک دیتے ہیں اور وہ بیچارہ دس دیہاڑیوں کی کمائی پیر کو دے رہا ہے اور پھر ایسے پھینک دیتا ہے بس ختم علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے پاس ایک پیر صاحب تشریف لائے تو وہاں ان کا ایک مرید رہتا تھا انہیں پتہ چلا کہ میرے پیر صاحب اقبال کے مہمان بنے ہوئے ہیں تو وہ زیارت کے شوق میں اقبال کے پاس ائے تو پیر صاحب سے ملاقات کی اور اپنا ٹکڑا سنایا کہ میں نے بیٹی کی جہاں منگنی کی ہوئی ہے وہ شادی مانگ رہے ہیں اور میرے پاس گنجائش نہیں ایک س روپے کا پہلے ہی مکروہ اور بیٹی کی شادی بھی کرنی ہے تو حضرت اپ دعا کیجئے تو انہوں نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اور اسے اجازت دے دی اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور 10 روپے کا نوٹ نکالا اس کو اس نے لپیٹا ہوا تھا اور اس کو نکال کر کے نظر پیش کی پیر صاحب نذرانہ کو قبول کر دیا جیپ میں ڈال دیا علامہ اقبال علیہ رحمہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ان کی ہنسی نکل گئی خیر جب وہی جا چکا تو پیر صاحب نے کہا کہ حضرت اپ ہنسے کیوں تھے فرمایا پیر جی اپ کی دعا کی قبولیت پہ مجھے ہنسی اگئی تھی کہا اپ کو کیسے پتہ چل گیا کہ میری دعا قبول ہو گئی کہا جب اپ نے دعا نہیں کی تھی تو وہ ایک س روپے کا مقدس تھا تو جب دعا کر دی تو وہ 110 کا مقروض ہو گیا انا نہیں سود ہے پیران حرم کا ایک تو مریدوں کی دعا ہے نا کہ پیر صاحب کی زیارت ہو جائے اور ایک بھی سب کی دعا ہے الہی مجھے دو چار سو مریدوں کا پیر بنا دے اور ان کی دن بھر کی کمائی سے میری جاگیر بنا دے سارا دن کماتے وہ ہیں اور جو ہے وہ شام کو بھی سب کو نظرانہ دے جائیں لیکن جو غریبوں سے بھی نظرانہ بٹور رہا ہے اور ان کی غربت کا بھی خیال نہیں رکھ رہا مرگ پہ جاتا ہے تو وہاں سے بھی نظرانہ لیتا ہے تو پھر اس کو کس نے حق دیا ہے کہ اس کو پیر کہا جائے یہ اس طرح کا ایک طبقہ موجود ہے یہ ملکوں کا یہ چرسیوں کا اور یہ بھنگیوں وغیرہ کا یا جس طرح کے اس طرح کے لوگ ہمارے سامنے اتے ہیں بہت سارے عامل جگہ جگہ بیٹھے ہوئے ہیں تو میں ان کو دو نمبر نہیں کہتا بالکل دو نمبر نہیں ہیں یہ تو 420 نمبر ہیں اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں وہ لٹتے ہیں جو جوا لا ہیں اور جو شعور سے عاری لوگ ہیں ان لوگوں کے پاس جانے والے وہ اپنے سطحی مفاد کے لیے انتہائی اجاڈ لوگ انتہائی چاہے لوگ ہوتے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ ان کو دو نمبر کہا جائے یہ 420 نمبر ہیں اور ان کے پاس جانے والے بھی اسی طرح کے لوگ ہیں لیکن وہ سر سے لے کر پاؤں تک کاروباری اور وہ اپنے اس نام کو اپنے بزرگوں کے نام کو کیش کرواتے ہیں اور وہ خانقاہی نظام کو ایک کاروبار کی صورت کے اندر رکھے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد اصول ظاہر ہے ایسے لوگوں کے پاس جا کے بیٹھنے سے جو بھی باشعور ادمی ہوگا وہ چند دنوں میں سمجھ جائے گا کہ یہ شخص صوفی ہے یا جو ہے تصوف کے نام پر جو ہے وہ کاروبار کرنے والا ہے یہ دو نمبر لوگ ہیں یہاں سے وہ جو ہے وہ لوگ جو ہیں وہ دھوکہ کھا جاتے ہیں لوگ بھی جو ہے وہ اسلام کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں ان کو جو ہے وہ 420 نمبر کہوں گا اور دوسرا طبقہ بالخصوص دو نمبروں کا ہے اور یہ جو طبقہ ہے جن کا فہم دین اور فہم تصوف ناقص ہے اور وہ اس تصوف کی تعلیم سے لوگوں کے اندر جو ہے وہ حرارت جو اندر کی ہے وہ چھین لیتے ہیں اب اس میں جب علماء نے بہت زیادہ پکڑ کی تو جب علماء جاتے تو وہ ہنس کے کہتے او جی یہ لوگوں نے بنایا ہوا ہے میں نے کب کہا ہے اور جب لوگ جاتے تو وہ ہنس کے کہتے یار میں تو بڑا کمزور ادمی بس چھوڑو اس بات کو تو وہاں اس طرح ٹال کر کے جو ہے وہ گول مول بات کرتے تھے اور اس سے ان کا کاروبار چمکتا رہتا ہے تو اس طرح جو ہے وہ بہت ساری ایسے واقعات جو ہیں وہ لوگوں نے خود مشہور کر کے اور اس کے بل بوتے کے اوپر جو ہے وہ اپنے کاروبار رکھے ہوئے ہیں اور کرامات معروف کر دی جاتی ہیں جبکہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا تو اس کے خلاف ہمیں عملی طور پہ اٹھنا ہوگا اور تصوف کی ولایت کی جو حقیقی صورت ہے وہ لوگوں کے سامنے رکھنی ہوگی اور جب وہ صورت ہم لوگوں کے سامنے رکھیں گے اس سے تھوڑے لوگ تیار ہوں لیکن بامقصد لوگ تیار ہوں گے اور حقیقت حقیقی چہرہ جو تصوف کا وہ لوگوں کے سامنے ائے گا باقی اللہ تعالی جل شانہ اپنے دین کا خود محافظ ہے موجودہ صورت میں اگر ہم نے اپنا کوئی کردار ادا نہ کیا اور اس طرح کے باب ملنگ اور اس طرح کے دو نمبر لوگ پنپتے رہے پرورش پاتے رہے اور معاشرے کے اوپر موثر رہے اور ان کے پاس چونکہ ذرائع ابلاغ بھی اب ہر ایک کو یہ سوشل میڈیا جب سے ایا ہے تو اب ہر ایک کی پہنچ میں ذریعہ ذرائع ابلاغ بھی اگئے تو جو بھی جس طرح چاہے اپنی تشہیر کر سکتا ہے تو ہم جس پہ خاموشی اگر طاری رکھی تو پھر جو ہو رہا ہے وہ تو ہم سب کے سامنے ہی ہے لیکن اگر ہم اپنا حق ادا کیا وہ کہتے ہیں اپنے حصے کا کام اگر ادا کیا help the poor. Poor people are also taken care of. They don't know whether there are crows in Karachi or not. If there are crows, that child is eating bread, then they snatch it from his hand, so in the present era, this is also the case with the feet. They are taking care of them and their life is miserable, the vision they have is wasted, it is not that they have a great need. They throw it away and that poor person is giving the earnings of ten days to a pir and then throws it away like that. A Pir Sahib came to Allama Iqbal (peace be upon him) and there was a follower of his who lived there. He found out that my Pir Sahib Iqbal So he came to Iqbal in the interest of pilgrimage and met Pir Saheb It is said that Pir Saheb is Jalali, we named the rude person Jalali, so this is a strange story, then Sufism is the name of Akhlaq Aliya, and this is the concept of appearance in our Tariqat. Call it the current Iran or call it crime, it is not a concept at all, but it is a huge NGO. One's condition is known from the conditions of everyone's condition, so the concept of care is to take from the rich andand told his story that I have got my daughter engaged and he is asking for marriage and I don't have room for one hundred rupees in advance. It is abominable and the daughter is also to be married, so Hazrat asked you to pray, then he raised his hands and prayed and gave him permission. He put his hand in his pocket and took out a 10 rupee note. Pir Sahib accepted the offering and put it in the jeep. Allama Iqbal (peace be upon him) was watching the whole scene. He laughed. Well, when he had left, Pir Sahib said, "Why were you laughing?" I laughed at the acceptance of his prayer. He said, "How did you know that my prayer was accepted?" He said, "When you did not pray, he was holy for one hundred rupees. When he prayed, he became indebted for 110 rupees." Ego is not usury, but one is the prayer of the martyrs of Piran Haram, is it not that the pilgrimage of Pir Saheb is done, and one is the prayer of all, may God make me the pir of two or four hundred martyrs and make my estate from their daily earnings. They are the ones who earn all day long, and those who have it, should give it to everyone even in the evening. Who has given the right to be called "Peer"? There is such a class. This is the country of the Charsis and this is the Bhangis. If there are, I don't call them two numbers. They are not two numbers at all. They are 420 numbers and they fall in the hands of such people who are gambling and people who are devoid of consciousness. They go to these people for their superficial interest. The most independent people are the most demanding people. I don't think that they should be called two numbers. These are 420 numbers and there are similar people who go to them, but they are entrepreneurs from head to toe and they use this name. They make cash in the name of the elders and they keep the monastic system in the form of a business and their purpose is clear. A person is Sufi or whoever is doing business in the name of Sufism. These two numbers are people from here. I will say that there are 420 numbers and the second class is of two numbers in particular and this is the class whose understanding of religion and Sufism is poor and they would take away the heat that is inside people from the teaching of this Sufism. Now, when the scholars caught a lot, when the scholars went, they would laugh and say, Oh, this is made by people. When did I say that? Just leave this thing aside, they used to talk about what is there and their business continues to shine. Those who are on the top of the bush are keeping their businesses and the deeds are made famous, while they do not exist, then we have to rise against it in practice and the real form of the wilayat of Sufism is that of the people. It has to be put in front and when we put that image in front of the people, few people will be ready for it, but purposeful people will be ready and the reality is the real face of Sufism that he will bring before the people. If we do not play our role and such Bob Milling and such two number people continue to thrive and continue to grow and be effective on the society and because they have mass media now everyone has this social media. Ever since it came, now the mass media has come within everyone's reach, so anyone can advertise themselves in any way they want, so if we keep silent about what is happening, then what is happening is in front of all of us. If we have paid our right, they say if we have paid our share

Comments